ابو طالب کے پاس:۔ عبدالمطلب کی وفات - TopicsExpress



          

ابو طالب کے پاس:۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے۔ اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے، اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔ آپ کی دُعا سے بارش :۔ ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردار انِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ درمیان دعا میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔ چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۱۹۰)
Posted on: Fri, 22 Nov 2013 08:56:36 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015