اس ہتھیار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی - TopicsExpress



          

اس ہتھیار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی نالی دائیں یا بائیں 75 ڈگری تک مڑ سکتی ہے۔ چناں چہ آڑ یا دیوار کے پیچھے بیٹھ کر دائیں یا بائیں چھپے بیٹھے دشمن کو کیمرے کی مدد سے دیکھ کر نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ ہتھیار بنیادی طور پر غیر روایتی جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ پی او ایف کے ہنرمندوں نے بھی اسے دہشت گرد مارنے کے لیے تیار کیا جو عمارتوں یا ٹھکانوں میں چھپ کر لڑتے ہیں۔ اس کی بدولت پوشیدہ دشمن کو ٹھکانے لگانا بہت آسان ہوچکا۔ درج بالا قسم کا پہلا ہتھیار ’’پریسیکوپ رائفل‘‘ (Periscope rifle) پہلی جنگ عظیم میں ایجاد ہوا۔ اس رائفل میں پریسیکوپ لگی ہوتی، یوں خندق میں بیٹھا فوجی سامنے آئے بغیر دشمن کو دیکھ لیتا۔ اسی اصول کی بنیاد پر اسرائیلی سائنس دانوں نے اپنی مشہور رائفل، ’’کارنر شوٹ‘‘ ایجاد کی۔ اب اسرائیل کے علاوہ صرف چین، پاکستان، ایران اور جنوبی کوریا یہ خاص ہتھیار تیار کررہے ہیں۔ پی او ایف کے ہنرمندوں کی مہارت کو داد دیجیے کہ انہیں نے صرف 6 ماہ کی مدت میں یہ پیچیدہ ہتھیار کو ڈیزائن کرلیا جس کی تیاری میں دوسروں نے کئی برس لگائے۔ یہی نہیں، پی او ایف اب ہتھیار کے تین ورژن بنا رہا ہے: ایک پستول ،دوسرا سب مشین گن اور تیسرا دستی بم چھوڑنے والا۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہی پی او ایف کے قابل قدر ماہرین نے ایک سنائپر رائفل ’’عضب‘‘ بھی تیار کرلی۔ یہ 800 میٹر دور کھڑے دشمن کو سو فیصد درستی سے نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی حد مار چار کلو میٹر ہے۔ یہ سنائپر رائفل ’’نائٹ وژن ٹیکنالوجی‘‘ کی بھی حامل ہے تاکہ رات کو بھی کام آسکے۔ یاد رہے، پی او ایف میں جرمنی کی مشہور سنائپر رائفل، ہیلکر اینڈ کوخ پی سی جی 7 بھی لائسنس پر پی ایس آر 90- (PSR-90)کے نام سے بنتی ہے۔ مگر اب پاک فوج اور دیگر پاکستانی سکیورٹی فورسز پاکستان ساختہ ’’عضب‘‘ سنائپر رائفل بھی استعمال کرسکیں گی۔ اس رائفل کی گولی مشین گن سے نکلی گولی جتنی قوت رکھتی ہے۔ پی ایس آر90- کی مؤثر حد مار بھی 800 میٹر ہے۔ تاہم دشمن سے مقابلہ کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ پی او ایف کے ماہرین زیادہ مؤثر حد والی سنائپر رائفل ایجاد کریں۔ بھارتی اسلحہ ساز کمپنی 2300 میٹر مؤثر حد مار رکھنے والی سنائپر رائفل، ودھاونسک (Vidhwansak) تیار کرچکی۔ یہ ’’اینٹی۔ میٹریل رائفل‘‘ بھی ہے، یعنی سرحد پر بنی دشمن کی چوکیاں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور چین کے ساتھ لگنے والے علاقوں میں بھارتی فوج نے ودھاونسک چلانے والے سنائپر رکھے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی مہمانوں نے تکبیر، پی او ایف آئی اور عضب سمیت تمام پاکستانی ہتھیاروں میں دلچسپی لی۔ انہوں نے خصوصاً جے ایف 17- اور الخالد ٹینکوں کی خصوصیات کا جائزہ لیا۔ پاکستانی ہتھیاروں کی ایک اہم خاصیت معیاری ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کے اسلحے سے سستا ہونا ہے۔ اسی لیے ترقی پذیر ممالک کے نمائندے پاکستانی ہتھیار خریدنے پر غور و فکر کرتے پائے گئے۔ 2020ء تک 200 ایٹم بم ماضی کے پاکستانی حکمران طبقے سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں، مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سبھی حکمرانوں نے ایٹمی منصوبہ جاری رکھ کر پاکستان کا دفاع نہایت مضبوط بنادیا۔ اور اب امریکہ کے مشہور ترین تھنک ٹینک، کونسل آن فارن ریلیشنز نے خبر دی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ فعال ہے۔ کونسل سے وابستہ تعلیمی ادارے، جارج مین یونیورسٹی (ریاست ورجینیا) کے محققین کی تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ سب سے زیادہ متحرک ہے۔ تحقیق کی رو سے پاکستان 2020ء تک ’’دوسو سے زائد‘‘ ایٹم بم تیار کرلے گا۔ جبکہ اس وقت تک بھارت کے پاس ’’110 ایٹم بم‘‘ موجود ہوں گے۔ پاکستان کا ایٹمی منصوبہ فعال ہونے کی وجہ نمایاں ہے… بھارت بہ سرعت دنیا بھر سے اربوں روپے کے جدید ترین ہتھیار خرید رہا ہے۔ ان ہتھیاروں میں ففتھ جنریشن والے ملٹی رول طیارے، ٹینک، توپیں، آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز شامل ہیں۔ پاکستان بھارتیوں کے برعکس اربوں روپے اسلحے کی خریداری پر خرچ نہیں کرسکتا، اسی لیے مذید ایٹم بم بناکر حساب برابر رکھنے کی سعی جاری ہے۔ پاکستانی سائنس دانوں اور ہنرمندوں کی توجہ کا دوسرا مرکز ڈلیوری سسٹم ہیں جن کے ذریعے ایٹم بم دشمن کی سرزمین پر پھینکے جائیں گے۔ فی الحال پاکستان بمبار طیارے، بلاسٹک میزائل اور کروز میزائل کے ذریعے پھینکے جانے والے ایٹم بم تیار کرچکا۔ اب پاکستانی ماہرین کی سعی ہے کہ میزائلوں کی رفتار زیادہ سے زیادہ بڑھائی جائے۔ وجہ یہ کہ بھارتی میزائل شکن نظام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لہٰذا پاکستانی میزائلوں کی رفتار اتنی زیادہ تیز ہونی چاہیے کہ کوئی بھارتی میزائل شکن انہیں چھو بھی نہ سکے۔ نیا اسلحہ بنانے کی یہ دوڑ یقینا غیر عقلی و غیر اخلاقی ہے، مگر یاد رہے، اس کا آغاز بھارت نے کیا۔ اگر پاکستان نے دلیری و ثابت قدمی سے یہ دوڑ جاری نہ رکھی تو خاکم بدہن بھارت پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ جے ایف۔17…نمائش کا ہیرو آئیڈیاز 2014ء میں مہمانوں اور میزبانوں کی توجہ کا مرکز پاکستان و چین ساختہ ملٹی رول طیارہ، جے ایف۔17 بنا رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام جدید ملٹی رول طیاروں میں سب سے سستا ہے۔ اس لیے مصر، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا جے ایف17- خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔پچھلے دنوں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کے سربراہ، ایئرمارشل جاوید احمد نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ مقامی طور پر تیار کردہ ’’50‘‘ جے ایف17- پاک فضائیہ میں شامل ہوچکے۔ یاد رہے، پاک فضائیہ اپنے ہوائی بیڑے میں 250 تک جے ایف17- شامل کرنا چاہتی ہے۔ فی الوقت ان کی تعداد 90 سے زیادہ ہے۔ یہ آئندہ کئی برس تک پاک فضائیہ کا مرکزی لڑاکا و بمبار (ملٹی رول) طیارہ رہیگا۔جے ایف17- پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس اور چین کے اسلحہ ساز ادارے، چنگدو ایئرکرافٹ انڈسٹری گروپ کی مشترکہ تخلق ہے۔ اس ایک جدید طیارے کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر ہے۔ جبکہ جے ایف 17- جیسی خصوصیات رکھنے والے بھارتی ملٹی رول طیارے ’’ہال تیجاس‘‘ کی قیمت تین کروڑ بیس لاکھ ڈالر ہے۔ سستا ہونے کے باوجود ماہرین عسکریات کی رو سے جے ایف 17- اپنے بھارتی معاصر سے کارکردگی میں بہتر ہے۔پاکستانی و چینی ادارے جے ایف17- میں نت نئے آلات متعارف کراتے رہتے ہیں۔ اسی لیے طیارے کا ہر ورژن پہلے سے عمدہ ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ چنگدو گروپ سے جے 10- بھی خریدنا چاہتی ہے تاہم سرمائے کی کمی آڑے رہی ہے۔ جے10- اور جے ایف17- میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر زیادہ رفتار یعنی 2.2 ماخ رکھتا ہے جبکہ آخر الذکر کی رفتار 1.6 ماخ ہے۔ دور حاضر کی جنگ میں تیز ترین طیاروں نے اہمیت اختیار کرلی ہے کیونکہ ایک طیارہ جتنا تیز ہو، وہ اتنی ہی جلد اپنے ہدف پر پہنچے گا۔ یوں دشمن کے ہتھیار اس کے سامنے بے اثر رہیں گے۔ فی الوقت روس ساختہ مگ 31- اور مگ25- تیز ترین ملٹی رول طیارے ہیں۔ روس کی بھی شمولیت آئیڈیاز 2014ء کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں روس کی اسلحہ ساز کمپنیاں بھی پہلی بار شریک ہوئیں۔ پچھلے چند ماہ سے روس اور پاکستان کے عسکری تعلقات تاریخی موڑ لے چکے۔ دونوں کے مابین دفاعی معاہدہ ہوا۔ روس نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی بھی ہٹالی ہے۔ پھر یہ خوش خبری آئی کہ روس ہمیں ایم آئی35- ہیلی کاپٹر اور جے 17- میں لگنے والے آرڈی93- کلیموف جیٹ انجن براہ راست فراہم کرنے پر رضامند ہوچکا۔(پہلے وہ چین کو فراہم کرتا تھا) روسی حکومت بجلی کی کمی، انسداد منشیات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان کی مدد کررہی ہے۔ دراصل بھارت اور مغربی ممالک کی بڑھتی قربت سپرپاور روس کو پاکستان کے قریب لے آئی۔ بھارت اور روس کے تعلقات میں دراڑ 2012ء میں پڑی جب بھارتی حکومت نے روسی مگ35- پر فرانسیسی ملٹی رول طیارے، رافیل کو ترجیح دی۔ بعدازاں بھارتیوں نے امریکہ سے اپاچی ہیلی کاپڑ خریدنے کا بھی معاہدہ کر لیا۔حال ہی میں بھارت میں متعین روسی سفیر، الیگزینڈر قدقن نے بیان دیا: ’’چین کے سخوئی27- طیارے (جو روس نے چینیوں کو فراہم کیے) رافیل کو کسی بھی مجادلے میں مچھروں کی طرح مسل ڈالیں گے۔‘‘ اس پر بھارتی میڈیا نے روسی سفیر کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا۔ گو روس کے لیے اب بھی بھارت زیادہ اہم ہے لیکن بدلتی عالمی صورت حال میں چین اور پاکستان بھی روسیوں کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوچکے۔ خصوصاً چین اور روس کی بڑھتی دوستی ایشیا میں بھارت کو کبھی بے قابوجن نہیں بننے دے گی جو طاقت کے بل پر علاقائی سپرپاور بننا چاہتا ہے۔ (1) تبصرہ صفحہ شیئر کریں صفحہ پرنٹ کریں دوستوں کو بھیجئے on Twitter, become a fan on Facebook (1) تبصرے PAKISTAN ZINDA BADتجویز BASHARAT AHMED BUTT 4:23 AM اپنی رائے دیجئے (نام (ضروری ہے (ای میل (ضروری ہے ویب سائٹ ایکسپریسس اردو ایکسپریس کے بارے میں ہم سے رابطہ کریں ایکسپریس ٹریبیون تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2014 ایکسپریسس اردو
Posted on: Mon, 22 Dec 2014 09:04:48 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015