جنید جمشید کے واقعے سے ایک بات تو - TopicsExpress



          

جنید جمشید کے واقعے سے ایک بات تو واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ توہین رسالت اور توہین صحابہ اور امہات المومنین کا قانون ان مولوی حضرات کے لیئے ایک کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور ان قوانین کو صرف فرقہ وارانہ مقاصد اور دوسروں سے دشمنی نکالنے کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی اپنا ان ہی جرائم کا ارتکاب کرے تو یہ بے شرم مولوی اس کی معافی کا اعلان کر دیتے ہیں (جیسا کہ مفتی نعیم نے بڑی ڈھٹائی سے کیا) اور اگر کسی دوسرے مذھب و مسلک کا فرد اسی جرم کا مرتکب ہو تو اس کی کم سے کم سزا “سر تن سے جدا” تجویز کرتے ہیں،گویا نبی مکرم صلی ﷲ علیہ ا آلہ وسلم سے محبت کو بھی یہ بے شرم مولوی اپنی دکانداری چمکانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ جنید جمشید نے یہ جرم کیا تھا یا نہیں کیا تھا (اور میرا مؤقف واضح ہے کہ اس نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں کوئی نا زیبا لفظ استعمال نہیں کیا) جس طرح مولویوں نے کھل کر اس کی حمایت کی، جبکہ وہ خود اپنا جرم تسلیم کر رہا ہے اور اس کے ہمنوا مولوی بھی اس کا جرم تسلیم کر رہے ہیں، اور اس کی معافی تلافی کا اعلان کیا وہ خود ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ جبکہ دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نزدیک غیر مسلم ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست کا شہری ہو) کو توہین رسالت کے جرم میں سزا نہیں دی جا سکتی (ابن تیمیہ کی کتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول کا حوالہ ذیل میں دیا گیا ہے)اور اس قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہو گا، تو ذرا ان مولویوں کی منافقت ملاحظہ فرمائیں کہ ایک مسلمان کو تو اس جرم کی سزا سے بچانے کے لیئے ہر طرح کی حیلے بازی کر رہے ہیں جبکہ اگر یہی جرم کسی غیر مسلم سے سرزد ہوا ہوتا تو اب تک اس کو زندہ جلا چکے ہوتے اور ان بے شرم مولویوں میں سے کوئی بھی اس غیر مسلم کو معافی کا حق دینے کے لیئے تیار نہیں ہوتا۔ غیر مسلم تو ایک طرف اگر یہی جملے کسی بریلوی یا شیعہ مسلمان نے ام المومنین عائشہ کے لیئے استعمال کیئے ہوتے تو اب تک پورے ملک میں آگ لگ چکی ہوتی اور کافر کافر کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتیں، دہشتگرد تنظیمیں بدلہ لینے کا اعلان کرتی نظر آ رہی ہوتیں لیکن اس دفعہ جرم چوں کہ ان کے اپنے پیر بھائی، ہم مسلک سے سرزد ہوا ہے اس لیئے پیروکاروں کو سانپ سونگا ہوا ہے اور کسی “نوکر صحابہ” کے منہ سے آواز تک نہیں نکل رہی اور نہ کوئی مولوی “امی عاشہ امی عائشہ” کرتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ہے ان بے شرم مولویوں کا جرم ناپنے کا معیار۔ یعنی ساری پاندیاں صرف ان لوگوں کے لیئے ہیں جو اس حوالے سے مذہبی و مسلکی اختلاف رکھتے ہوں ورنہ اپنے ہم مسلک کو ہر طرح کی توہین و اہانت کی اجازت حاصل ہے۔ اور اس سارے عمل میں کوئی صحیح بخاری کی اس روایت (حوالہ ذیل میں موجود ہے) کی طرف اشارہ بھی نہیں کر رہا جہاں یہی واقعہ بعینہ نقل ہے۔ کمال کی بات ہے۔
Posted on: Sun, 07 Dec 2014 01:29:51 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015