دلہن ۔۔۔ڈاکٹر ہی چاہیے پاکستانی - TopicsExpress



          

دلہن ۔۔۔ڈاکٹر ہی چاہیے پاکستانی معاشرے میں کبھی دلہن کے لئے لمبا قد، گوری رنگت ، دلکش شخصیت اور اچھے خاندان سے ہونے کا معیار مانا جاتا تھا،آج دلہن کا ڈاکٹر یا ڈینٹسٹ ہو نا ضروری سمجھا جاتا ہے،کچھ عرصہ قبل والدین کے لئے بیٹی کی پرورش اور تعلیم اہم تھی لیکن اب ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی یا بہو ڈاکٹر ہو، یہ الفاظ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے ایک میڈیکل طالبہ کی والدہ کے حوالے سے نشر کیے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے قبل ازوقت کیر ئیرکے خاتمے کی شرح خطرنا ک حد تک زیادہ ہے۔رپورٹ میں پاکستان میں طبی صورت حال کے بگاڑ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستانی مرد چاہتا ہے کہ اس کی ہونے والی دلہن ڈاکٹر ہو،ڈاکٹر لڑکی سے شادی ان کے لئے سماج میں برتری کا احساس لیے ہوئے ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی دلہن میں ورکنگ وومن اور گھریلو خاتون جیسی دونوں خصوصیات مل جاتیں ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ، انہیں اپنے خاندان کی خاطر پروفیشنل زندگی کو خیر باد کہنا پڑتا ہے ۔ میڈیکل شعبے سے وابستہ لڑکیوں کی اکثریت شادی کے بعد اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتی جس سے طبی شعبہ شدید بحران کا شکارہے۔ پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے داخلے کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ شرح اندازاً 30فی صد لڑکے اور70فی صد لڑکیوں کے داخلے کی ہے۔ شادی کے بعد ان 70 فیصد خواتین ڈاکٹروں کی اکثریت عملی زندگی میں نہیں آتی جس کے باعث ملک ان کی خدمات سے محروم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے طبی میدان میں ایک خلاء پیدا ہوجاتا ہے جسے پورا نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدیدکمی پر ماہرین نے یہاں تک تجویز دی کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے خواتین کے لئے کوٹا مخصو ص کیا جائے۔ ایک اکیڈمک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میڈیکل طلباء و طالبات کے لئے کچھ مدت تک کام کے بانڈ کی شرط عائد کی جائے، کم از کم دو سال تک انہیں کام کرنے کا پابند کیا جائے۔ امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیکل کالجز میں1991 میں صنفی امتیاز پر کوٹا ختم کردیا گیا جس کے بعد مردوں کی تعد اد طبی کالجز میں بتدریج کم ہو گئی اور اب ان کالجز میں80سے85فی صد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں،جب کہ امریکی میڈیکل کالجز میں خواتین کے داخلے کی شرح47فی صد ہے۔ کراچی کے ڈاوٴ یونی ورسٹی میں70فی صد طالبات ہیں۔پاکستا ن بھر میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے پاس مجموعی طور پر132988ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں ان میں سے58789لیڈی ڈاکٹر ز ہیں۔جب کہ طبی شعبے میں اسپیشلسٹ کی مجموعی تعداد 28686ہے جن میں7524خواتین ہیں۔ لاہور کے ایک میڈیکل کالج کی ڈائریکٹر کا کہنا تھاکہ جب طالبات میڈٰکل کالج میں آتیں ہیں تو بہت پر جوش ہوتیں ہیں لیکن جیسے ہی ان کی شادی ہوتی ہے ،کبھی خاندان کبھی سسرال کے دباوٴ سے وہ فیلڈ چھوڑ جاتیں ہیں۔ایک ڈینٹسٹ حرا ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ بات ایک سماجی حیثیت بن چکی ہے کہ لوگ اپنی بہو کو ایک ڈاکٹر کے طور پر بیان کریں،اگر کسی کو صرف ایک دلہن ڈاکٹر چاہیے کہ وہ صرف کھانا پکائے تو انہیں ایک ڈاکٹر لڑکی سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لڑکے پڑھتے نہیں اسی وجہ سے لڑکیوں کو میڈیکل اور دیگر شعبوں میں میرٹ پر زیادہ داخلے مل جاتے ہیں ، یہ کہنا کسی حد تک درست ہے تاہم لڑکیوں کے عملی زندگی میں نہ آنے کے باعث جو نقصان ملک کو پہنچ رہا ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے کبھی بندنہیں ہونے چاہیے،لیکن حکومت خواتین ڈاکٹروں کو عملی زندگی میں لانے سمیت دیگر پالیسیاں واضح کرے۔ معاشرے کو اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ڈاکٹر دلہن کے رجحان نے اکثر والدین کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے، جواپنی بیٹیوں کی شادی کے حوالے سے فکرمند نظرآتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر دلہن خاندانی مرتبے میں اضافے کا سبب ہوتی ہے لیکن شادی کے معاملے میں ہمیں اسے معیار نہیں بنانا چاہئے۔ محمدر فیق مانگٹ Rani
Posted on: Sun, 27 Oct 2013 04:06:02 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015