س معاشرے میں جہاں گولی کی آواز تو کیا - TopicsExpress



          

س معاشرے میں جہاں گولی کی آواز تو کیا گولی چلنے کے امکان پر ہی لوگ اپنے گھروں کے دروازوں پر کنڈیاں چڑھا لیتے ہیں، رات پڑتے ہی گلیوں میں قدم رکھتے ڈرتے ہیں وہاں گولی کھانے والے ہی امید کی کرن ہوتے ہیں۔ وہ معجزہ جو صرف امید کے بطن سے پھوٹتا ہے ، وہ امید جو ہر زمانے اور خطے میں چہرے بدلتی رہی ہے،جو آگہی اور زندگی کی امید ہے۔میرے زمانے میں ملالہ امید کا استعارہ ہے ان بچیوں کے لئے جنہیں بیٹوں کی چاہ میں پیدا نہیں ہونے دیا جاتا یا پیدا کیا جاتا ہے، ان ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچیوں کے لئے جو کم عمری میں ماں بنتی ہیں اورسکول جانے سے محروم ہو جاتی ہیں، ان کے لئے جو جبری جنسی مشقت کے لئے استعمال ہوتی ہیں، ہر اس عورت کے لئے جو اپنی کفالت کے لئے مردوں کی محتاج صرف اس لئے ہے کیوں کہ وہ بچپن میں سکول جا کر پڑھ نہیں پائی، ان ساڑھے تین ارب عورتوں کے لئے جو س دنیا کا نصف ہوتے ہوئے بھی مواقع اور وسائل میں عورت ہونے کی وجہ سے پسماندہ رکھی گئی ہیں۔ ان سات ارب انسانوں کے لئے جو ایک بہتر دنیا کی امید رکھتے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ امید ہے؟ اس دنیا میں جس کا بیانیہ، تاریخ اور رُخ مرد طے کرتے آئے ہیں ایک لڑکی نہیں ہر لڑکی کی اہمیت سے انکار کا رویہ ہے جو ملالہ اور اسکے خوابوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے کا رویہ ہے۔ یہ ان مردوں اور عورتوں کا شکست خوردہ رویہ ہے جو زندگی کا سامنا اب صرف اس لئے کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں زندگی کے نام پر پھر سے انہیں دھوکہ نہ دے دیا جائے، آگہی کے نام پر تیرگی نہ مل جائے، جو ہر امکان سے اور ہر انہونی سے ڈرتے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ اب ہم سب ہر امید سے اور کسی خوش گوارساعت کی آمد سے بھی ڈرتے ہیں ۔ اس گھڑی کیا اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہیں۔ یہاں کسی کے لئے اب یہ کوئی بات ہی نہیں کہ وہ خوف زدہ اور اور سہمے ہوئے لوگوں کے بیچ بھی اپنی آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہے اور آج بھی جب لوگ شناخت دیکھ کر مارے جاتے ہیں تو وہ اپنی پہچان پر شرمندہ نہیں ،کہتی ہے کہ میں ملالہ ہوں۔ جہاں طاقتور اور لاکھوں ووٹرز کی حمایت والے طالبان کا نام تک نہیں لے سکتے وہ ایک بستہ اٹھا کر چند کتابوں کے حرف اپنا نے کے لئے ان کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے؟ جو پھیلے ہوئے ہاتھوں میں کتابوں کی خیرات بانٹنے کا سوچتی ہے؟ اس معاشرے میں جہاں گولی کی آواز تو کیا گولی چلنے کے امکان پر ہی لوگ اپنے گھروں کے دروازوں پر کنڈیاں چڑھا لیتے ہیں، رات پڑتے ہی گلیوں میں قدم رکھتے ڈرتے ہیں وہاں گولی کھانے والے ہی امید کی کرن ہوتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک ٹوٹتے وطن کی تعمیر اور اندھیرے میں خواب دیکھنے کی کوشش کرنے والے آنکھیں کھولنے کی جرات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب نے آنکھیں اندھیرے سے ڈر کر نہیں روشنی سے گھبرا کر بند کر لی ہیں۔ایسے میں اگر ملالہ خواب دیکھتی ہے تواس شہرِ آشوب میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں چاہئے۔ Waqas Ali Haider Muhammad Farhan Ali
Posted on: Sat, 19 Oct 2013 14:25:01 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015