سید عاصم محمود کیا انسان ٹائم مشین - TopicsExpress



          

سید عاصم محمود کیا انسان ٹائم مشین بنا سکے گا؟ بیسویں صدی کے وسط تک سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کا سب سے چھوٹا ذرہ ایٹم ہے ۔ یہ یونانی لفظ ’’ایٹموس ‘، (Atomos)سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ’’:جسے مزید کاٹا نہ جاسکے۔‘‘لیکن پھر بنیادی ذرات کی چاراقسام …کوارک، لیپٹون، گیج بوسن اور ہگس بوسن سامنے آگئیں۔ انہی ذرات میں فوٹون (photon) ذرہ بھی شامل ہے جس سے کہ روشنی جنم لیتی ہے۔ اور بجلی کا پیداکردہ الیکڑون بھی ! فوٹون سمیت تمام بنیادی ذرات مادہ یا کمیت (Mass)نہیں رکھتے۔ اسی لیے انہیں ناقابل تقسیم سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بعض ماہرین طبیعات کا خیال ہے کہ فوٹون کمیت رکھتا ہے، لیکن انسان اب تک ایسا آلہ ایجاد نہیں کرسکا جو اس کا وزن کر سکے یا اسے ناپ لے۔ اس نظریے کے حامی طبیعات دانوں میں مشہور جرمن ماہر، جولین ہیک بھی شامل ہے۔ جولین جرمن شہر، ہائیڈل برگ میں واقع میکس پلانک انسٹی برائے ایٹمی طبیعات سے منسلک ہے۔ پچھلے دنوں جولین ہیک نے دنیا والوں کے سامنے انوکھا نظریہ پیش کیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ فوٹون انتہائی طویل عرصے بعد گل سڑکر آخر مزید چھوٹے ذرے ’’نیوٹرینو‘‘( neutrino) میں ڈھل جاتا ہے۔ نیوٹرینو کی تین اقسام لیپٹون بنیادی ذرات گروہ میں شامل ہیں۔ واضح رہے، ماہرین طبیعات کی روسے ایک فوٹون، ایک کلو مادے کے ایک ارب ویں حصے کے ایک ارب ویں حصے کے ایک ارب ویں حصے کے ایک ارب ویں حصے کے ایک ارب ویں حصے کے دوارب ویں حصے(two-billionths of a billionth of a billionth of a billionth of a billionth of a billionth of a kilogram) جتنی کمیت رکھتا ہے۔ بنیادی ذرات کی کمیت اور انداز کار کے معاملات ایک طبیعاتی نظریے ’’سٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکل فزکس‘‘ (Standard Model of particle physics)کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔ پروفیسر جولین ہیک نے اس نظریے کی مددسے پیمائش کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ ایک فوٹون ایک کوئینٹلین ( quintillion)سال تک سالم رہتا ہے۔ ایک ارب برسوں کو ایک ارب برس سے تقسیم کریں ، تو 1کوئینٹلین سال بنتا ہے۔ تاہم پروفیسر جولین کو یقین ہے کہ پچھلے تیرہ ارب سال میں کچھ فوٹون گل سڑ کر مزید چھوٹے ذروں میں تقسیم ہوچکے ۔ یاد رہے، ماہرین کی روسے کائنات کی عمر 13.7ارب سال ہے۔ کائنات نے بگ بینگ کے ذریعے جنم لیا۔ لہٰذا بگ بینگ پہ تحقیق کرنے والے ماہرین ممکن ہے کبھی فوٹون سے پھوٹنے والے ذرات دریافت کرلیں۔ پروفیسر جولین کا انکشاف یہ ہے کہ اگر فوٹون کبھی تقسیم ہوا، تو وہ نیوٹرینوذرات میں بدل جائے گا۔ چونکہ یہ ذرے فوٹون سے زیادہ ہلکے ہوں گے لہٰذا وہ روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کریں گے… یوں پروفیسر جولین کے نظریے کی روسے کائنات میں روشنی سے بھی تیز رفتار مرئی شے وجود میں آگئی ۔ واضح رہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات میں روشنی سے زیادہ تیز رفتار کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ تاہم یہ نظریہ اس مفروضے پہ قائم ہے کہ فوٹون کوئی کمیت نہیں رکھتا۔ اگر مستقبل میں یہ کمیت دریافت ہوگئی، تو یقیناً نظریہ اضافیت باطل قرار پائے گا۔ روشنی سے بھی زیادہ تیزرفتار مادے کی دریافت حیرتوں اور عجائبات کا نیا در کھول دے گی۔ کیونکہ تب شاید ان ذرات کی بنیاد پر ایسی ٹائم مشین ایجاد کرنا ممکن ہوجائے جو وقت کے تمام قوانین واصول توڑتے ہوئے ماضی یا مستقبل میں آجا سکے۔ ایسی مشین کی ایجاد شاید حضرت انسان کا سب سے بڑا اور حیرت انگیزکارنامہ مانا جائے گا۔ ٭…٭…٭
Posted on: Tue, 27 Aug 2013 05:50:25 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015