شریف بن شریف نواز شریف صاحب کی - TopicsExpress



          

شریف بن شریف نواز شریف صاحب کی جمہوری حکومت پہ جب ایک جنرل نے حسب دستور ڈاکہ ڈالا اور انہیں ملک بدر کردیا تو ہمارا خیال تھا کہ اب نواز شریف اور انکا خاندان پاکستانی عوام کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گا جو کہ بھٹو صاحب کے خاندان نے کر دکھایا۔ ہم نواز شریف صاحب کی آنے والے دنوں میں کم گوئی اور سیاست میں غیر دلچسپی کو یہی سمجھتے رہے کہ انہیں اب پتہ چل چکا ہوگا کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔ مگر انہیں ایک بار پھر ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ الیکشن میں کامیابی پا کر اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بنتے دیکھ کر ہمیں اب یہ خیال آتا ہے کہ واقعی نواز شریف اور شہباز شریف کا تعلق ایک شریف خاندان سے ہی ہے جو انہوں نے عوام کو معاف کردیا، وگرنہ ہم پاکستانی تماشبین عوام نے تو ان کے جانے پہ بھی مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ بقول انکل سرگم جیسے ہر بدمعاش سیاستدان میں ایک شریف سیاستدان بھی مل ہی جاتا ہے ایسے ہی سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جس کے ساتھ شرافت کا تمغہ لگا ہوتا ہے اور جسے ہم رمضان شریف کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانوں میں شریف اُسے سمجھا جاتا ہے جو محلے میں سر جھکا کے گزرتا ہو، محلے کے بچوں سے دوستی رکھتا ہو، محلے کے بزرگوں کی بات غور سے سنتا ہو اور محلے کی عورتوں میں مقبول ہو، انہیں آپا جی، باجی جی کہہ کر مخاطب ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ محلے داروں کے بل جمع کرانے، سودا سلف لانے اور باجیوں کے کپڑے درزی تک پہنچانے اور لانے کا کام بلا معاوضہ اور بلا چوں و چرا کردیتا ہو۔ محلے میں دکھ سکھ کے موقع پہ سر پہ کپڑے کی سفید ٹوپی اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ دکھ سکھ میں پکنے والی دیگوں اور آنے جانے والے مہمانوں کی دیکھ بھال کے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دیتا ہو۔ دوسرے معنوں میں محلے کاشریف وہ ہوتا ہے جو لاوارث یا بے روز گار ہو۔ جس طرح ہر محلے میں اس قسم کا ایک شریف پایا جاتا ہے اسی طرح ہر دفتر میں بھی کچھ اسی نوعیت کے ملازم ہوتے ہیں جنہیں شریف ملازم کہا جاتا ہے۔ دفتری شریف کا کام اپنے افسر کو خوش رکھنا، اس کے ذاتی امور کو بھاگ بھاگ کر اور اپنی کنوینس پہ کھیل کر سر انجام دینا ہوتا ہے۔ دفتری شریف وقت پہ دفتر آتا ہے اور چھٹی کے بعد بھی کافی دیر تک دفتر میں رہ کر اپنے غیرحاضر ساتھیوں کا کام نبٹاتا ہے۔ انسانوں اور دفتروں کی طرح مہینوں میں یہ ایک شریف مہینہ ہوتا ہے جسے ہم رمضان شریف کہتے ہیں۔انسانی شرافت کی طرح رمضانی شرافت کا بھی ہمارے ہاں ناجائز فائدہ اُٹھایاجاتا ہے۔ ہمارے رمضان شریف کی عقیدت کی آڑ میں دفتروں، سرکاری اداروں اوربینکوں کے ملازم روزے دارآدھا دن کام کر کے پورے دن کی تنخواہ وصول کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر اسے بڑی ایمانداری سے پوراکریں گے۔ دکاندار بھی رمضان شریف کو نہایت مقدس اور مبارک سمجھتے ہوئے تیس دن جھوٹ بولنے سے عارضی توبہ کرتے ہوئے اشیائے فروخت کی قیمتیں منہ سے بتانے کی بجائے ان پہ پرائس ٹیگ لگا د یں گے تاکہ اس مبارک مہینے میں انہیں جھوٹ ’’بولنا‘‘ نہ پڑے۔ ادھر ہماری حکومتیں بھی ہر سال اس شریف مہینے میں قیمتوں کا اعتدال میں رکھنے کا اعلان یوں کرتی ہیں جیسے باقی کے گیارہ مہینوں کی کرپشن اورمہنگائی کی ذمہ داری ان پہ عائد ہی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ حکومت اسی شریف مہینے میں ملک کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے یوں مبرا قرار دیتی ہے جیسے ہمارے بجلی گھر بھی اس مہینے کی برکتیں اور ثواب حاصل کرنے کیلئے ایک ماہ کیلئے سچے مسلمان بن گئے ہوں۔ بلوں اور مہنگائی کے مارے عوام کوہمارے ہاں رمضان شریف کے آنے کا یوں بے تابی سے انتظاررہتا ہے جیسے ہمیں ہر گھنٹے بجلی جانے کی بجائے بجلی کے واپس آنے کا انتظار رہتا ہے۔ چنانچہ اب ہمارے ہاں قوم کا نجات دہندہ نواز شریف، کرپشن کا نجات دہندہ شہباز شریف اور مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا نجات دہندہ رمضان شریف سمجھا جانے لگا ہے۔ انسانوں، مہینوں،دفتروں اور دکانداروں کے علاوہ ہمارے ہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی شریف پائے جاتے ہیں جو اپنے پروفیشن کے اعتبار سے بڑے عجیب لگتے ہیں ۔ مثلاً اداکاری کے شعبے میں عمرشریف ،بابرا شریف اور سیاست میں نواز شریف اور شہباز شریف ۔ اور یہ اس لئے کہ ان دونوں شعبوں کو شریف نہیں سمجھا جاتا حالانکہ ایسے شعبوں کو غیر شریف بنانے میں خود شعبوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ رمضان شریف کی طرح کچھ مزار اور درگاہیں ایسی بھی ہیں کہ جنہیں مزار یا درگاہ شریف کہا جاتا ہے اور رمضان شریف کی طرح ان کی شرافت کا بھی کچھ کاروباری حضرات حاجت مندوں سے ناجائز فائدہ اُٹھا جاتے ہیں۔بقول انکل سرگم، یوں تو ہمارے دفتروں میں سال بھر چھٹیوں کا میلہ لگا رہتا ہے مگر رمضان شریف میں پورا مہینہ سرکاری چھٹی رہتی ہے۔ آپ کسی دفتر میں چلے جائیں ، روزے دار آپ کو دس بجے سے پہلے سیٹ پہ نہیں ملے گا۔اگر مل بھی گیا تو پوار نہیں ملے گا اس لیے کہ گیارہ بجے اس نے سپارہ اورظہر کی نماز پڑھنے کسی دور کی مسجد میں جانا ہوگا۔ وہاں سے واپسی پہ اگر وہ آپ کو مل بھی جائے تو آپ کا کام پھر بھی نہیں ہو پائے گا کہ اس نے دو بجے چھٹی کرنیکی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ اس دوران اگر آپ نے احتجاج کیا تو وہ آپ کو یوں دیکھے گا جیسے مسلمان کافر کو دیکھتا ہے۔رمضان شریف میں جس شریف انسان کا حلال آمدنی میں گزارہ نہیں ہوتا وہ پکوڑے سموسے اور کھجوروں کی سرراہ ریڑھی لگا کر پورے سال کا پیٹ بھر لیتا ہے۔ ان پکوڑوں سموسوں سے نہ صرف روزے دار اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ بھرتا ہے بلکہ ان کی بدولت ڈاکٹروں حکیموں کی روزیاں، ڈسپینسریاں اور فیملیاں چلتی ہیں۔ پکوڑے اور سموسے بازوں کی طرح رمضان شریف میں ویڈیو بازوں کی بھی خوب چلتی ہے۔ دفتر سے دو بجے چھٹی اور دو سے پانچ بجے تک ایک عدد بھارتی فلم دیکھئے ، روزہ آپ کا یوں کٹ جائے گا جیسے عید کے روز جیب کٹ جاتی ہے۔ بونگےؔ کا کہنا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے اور سفر میں روزہ معاف ہے اس لئے امیر آدمی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ تر ہوائی سفر میں ہی رہے۔ بقول انکل سرگم ،شیطان رمضان میں قید ہو جاتا ہے اور انسان ضمانت پہ رہا ہو جاتا ہے۔ naibaat.pk/?p=55386c The above Column is taken from above link of naibaat.pk .. copy rights of naibaat . all rights are reserved.
Posted on: Sat, 29 Jun 2013 22:54:52 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015