معاشرے کا ایک طبقہ یا تو طالبان کے - TopicsExpress



          

معاشرے کا ایک طبقہ یا تو طالبان کے طرز عمل کو باقاعدہ جائز سمجھتا ہے اور ان کے اقدامات پر خوشی کے شادیانے بجاتا ہے یا پھر سرے سے یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ طالبان یہ کام کرتے ہیں، دوسرا طبقہ وہ ہے جو طالبان کی منت سماجت پر اترا ہوا ہے اور مذاکرات کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے، تیسرے وہ لوگ ہیں جو ان کے نام لئے بغیر ان کی مذمت کرتے ہیں مثلاً جو کوئی بھی یہ دہشت گردی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ وہ ہومیوپیتھک مذمت ہے جو کسی کام کی نہیں، پانچویں کیٹگری میں وہ لوگ آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پہلے طاقت کے استعمال سے انہیں کمزور کیا جائے اور اس کے بعد ان سے مذاکرات کئے جائیں اور پھر وہ لوگ بچتے ہیں جن کا خیال ہے کہ سوائے طاقت کے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جہاں ریاست کو درپیش سنگین ترین خطرے سے نمٹنے کے لئے تقسیم اس قدر شدید ہوگی وہاں اس مسئلے کا خاک حل نکلے گا اور مسئلے کا حل نکالنا تو دور کی بات ہم اب بھی ان جنگجوؤں کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں ہم نے اس سانپ کو پال پوس کر بڑا کیا اور اسے روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا اس موقع پر سانپ کا منہ ہماری طرف نہیں تھا لہٰذا اس وقت کے جرنیلوں نے بڑی شان سے سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کو اپنی عسکری حکمت عملی کا عظیم ترین نمونہ قرار دیا آج وہی سانپ ہماری طرف پھن نکال کر کھڑا ہے اور اب بھی اس کا سر کچلنے کی بجائے اسے دودھ پلا کر سمجھتے ہیں کہ ہم اسے رام کرلیں گے جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سانپ کی نسل کو پالنے کی پالیسی ہی غلط تھی جس کا خمیازہ ہم بری طرح بھگت رہے ہیں۔ یاسر پیرزادہ beta.jang.pk/NewsDetail.aspx?ID=116824
Posted on: Sun, 04 Aug 2013 05:34:41 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015