موبائل ایس ایم ایس سے جنت کمانے کے - TopicsExpress



          

موبائل ایس ایم ایس سے جنت کمانے کے خواہاں ایک بات جو میں اکثر سوچتا تھا اور جس پر مجھے الجھن بھی محسوس ہوتی تھی، اس کے اظہار کے موقع آج مجھے ملنے والے ایک موبائل پیغام نے دے دیا۔ چونکہ اس صورت حال کا تقریبا یہاں ہر موبائل استعمال کرنیوالے پاکستانی کو سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے اس معاملہ کو اب قارئین کے ساتھ شئیر کررہا ہوں۔ موبائل پیغام بھیجنے والے کو میں نہیں جانتا مگر اس نے میرے دل کی بات کی۔ پیغام بھیجنے والا لکھتا ہے: عجیب رواج چل نکلا ہے، آئے روز ملنے والے موبائل پیغامات مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ ایس ایم ایس نو لوگوں کو سینڈ کرو تو مراد پوری ہوگی، یہ ایس ایم ایس دس لوگوں کو سینڈ کرو ورنہ دس سال کے لیے بدقسمت ہوجاؤ گے نقصان ہوجائے گا، یہ ایس ایم ایس دس لوگوں کو کرو تو خوش خبری ملے گی، جنت ملے گی اور نجانے کیا کچھ۔ کیا جنت و دوزخ کا فیصلہ اب موبائل کریں گے؟ کیا ہم اپنے دین کو اتنا ہی جانتے ہیں کہ موبائل کے ایک بٹن کو پریس کرنے سے جنت مل جائے گی اور اگر ایسا نہ کیا تو بدقسمت ہوجائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو پھر نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد اور دیگر عمل کس کام کے؟!! کیا ایس ایم ایس کئی لوگوں کو بھیجنے سے مراد پوری ہوگی تو پھر اللہ تعالٰی کےسامنے رونا ہاتھ پھیلانا کس کام کا!؟ غور و فکر کریں۔ کتنے ہی ایسے ایس ایم ایس ہمیں موصول ہوتے ہیں۔ ہم لوگ ہیں کہ جنت کمانے، اپنے قسمت کو بدلنے اور کسی آفت اور مصیبت سے بچنے کے لیے بغیر سوچے سمجھے نونو، دس دس ایس ایم ایس آگے سینڈ کرتے ہیں۔ بعض اوقات نو نو اور دس دس ایس ایم ایس کی تسبیح کرنے والے میرے ایسے جاننے والے بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں عمومی طور پر باشعور سمجھا جاتا ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ سب کچھ جانتے ہوئے اور بلا کسی خوف کے ہم سود جیسے گناہ کبیرہ کو چھوڑنے کے لیے نہ تیار ہیں اور نہ ہی اس پر غور کرتے ہیں مگر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کسی موبائل پیغام کا نونو، دس دس افراد کو بھیجنا یا نہ بھیجنا ہماری جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرے گا۔ ہم زکوۃ ادا نہیں کرتے اور حق دار کو اس کے حق سے محروم کرتے ہیں، بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں اللہ تعالٰی کی طرف سے مقرر کی گئی حدوں کے مطابق حصہ نہیں دیتے مگر سمجھتے ہیں کہ ہمارے ایسے گناہ نونو، دس دس ایس ایم ایس دوسروں کو سینڈ کرنے سے اللہ کی پکڑ سے بچ جائیں گے۔ ہم اپنے کاروبار میں دھوکہ دہی کرتے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے میں ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے، ہم تو پیسہ کمانے کے چکر میں بیمار کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے دی جانے والی دوا تک جعلی بناتے ہیں، کم تولتے ہیں، بجلی اور گیس چوری کرنا حق سمجھتے ہیں مگر اس سب کے باوجود اللہ کی پکڑ سے تو نہیں ڈرتے مگراس بات سے ڈر جاتے ہیں کہ کوئی ایس ایم ایس نونو، دس دس افراد کو نہ بھیجا تو مصیبت میں آجائیں گے۔ ہم بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں مگر ہماری گلیوں و محلوں میں ہماری ہی حفاظت کے لیے معمور غریب سیکیورٹی گارڈ کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہم اپنے لیے مصیبت اور بوجھ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں اپنے ہمسائے میں بھوکے اور غریب کا خیال رکھنے کا حکم دیتے ہیں مگر ان کی اس حکم عدولی کے باوجود ہم ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے گناہوں کو دھونا چاہتے ہیں۔ ہم پر نماز فرض کی گئی ہے جس کی کوئی معافی نہیں مگر ہم اس کو اپنے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے مگر ہم امریکا کی خوشنودی کے لیے اس کو رد کرتے ہیں۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اسلام کے واضح احکامات اور تعلیمات کے خلاف ہوتا ہے اور اس پر ہم شرمندہ ہوتے ہیں نہ خوفزدہ۔ ہم رنگ، نسل، فرقہ اور سیاسی سوچ کے اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کا بے دردی سے خون بہاتے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں اور اجتمائی طور پر اپنے فیصلوں سے، اپنے حرکتوں سے اللہ کو اور اللہ کے بندوں کو ناراض کرتے ہیں۔ ہم حقوق اللہ ادا کررہے ہیں اور نہ ہی حقوق العباد۔ مگر اس سب کے باوجود یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ موبائل ایس ایم ایس ہماری زندگیوں کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنوار دے گا۔ کاش ہم سوچیں، فکر کریں۔ حنین ایوب لمباڈا قرآن کریم و احادیث مبارکہ اسلامی واقعات دانشوروں کے اقوال اقتباسات سبق آموز حکایات اور سوشل ایشوز پر تحریریں پڑھنے کے لیے ھمیں جوائن کیجیے اور نیکی کے اس عمل میں ھمارا ساتھ دیجیے.. JOIN US Deen e Islam Aur Duniya
Posted on: Thu, 24 Oct 2013 08:19:42 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015